
HISTORY OF GANGRENE
Share
گینگرین کی تاریخ
گینگرین کی تحقیق اور علاج کی تاریخ مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اس کا سب سے پہلا ذکر قدیم تہذیبوں میں ملتا ہے، جب انسانوں کو زخم اور خون کی روانی کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔
قدیم تہذیبوں میں گینگرین
پرانے زمانوں میں، جب کسی کو زخم یا انفیکشن ہوتا تھا، ان کے پاس علاج کے لیے کوئی واضح طریقے نہیں تھے۔ قدیم مصر، یونان اور روم میں حکیموں اور معالجین کے پاس چند ابتدائی علاج موجود تھے، لیکن گینگرین جیسے شدید زخموں کا مؤثر علاج بہت مشکل تھا۔
قدیم مصر:
اس دور میں زیادہ تر علاج جڑی بوٹیوں اور قدرتی طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ اگر کسی کو زخم یا گینگرین ہوتی، تو انہیں جڑی بوٹیاں، تیل، اور مرہم دیے جاتے تھے، لیکن اس وقت خون کی گردش اور زخم کی اصل وجوہات کو سمجھنا ممکن نہ تھا۔
قدیم یونان اور روم:
یونانی اور رومی حکما کو بیماریوں کے بارے میں کچھ علم تھا، لیکن گینگرین کا علاج ان کے لیے بھی ایک چیلنج تھا۔ مشہور طبیب ہیپی کرائیٹس نے اپنی تحریروں میں بتایا کہ جب جسم کا کوئی حصہ سیاہ اور مردہ ہو جائے، تو اسے "سڑن" کہا جاتا ہے۔ تاہم، اس وقت اس کا کوئی مؤثر علاج موجود نہ تھا۔
درمیانی دور اور رینیسانس
درمیانی دور میں گینگرین کو ایک "لعنت" سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ بیماری بہت سے افراد کی زندگی کا خاتمہ کرتی تھی، خاص طور پر وہ لوگ جو جنگوں میں زخمی ہو جاتے تھے۔ اس زمانے میں طب ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔
رینیسانس (Renaissance):
اس دور میں طب نے ترقی کی۔ خون کی گردش اور جسم کی ساخت کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ 16ویں صدی کے قریب، سوئس طبیب پیراسیلسس نے گینگرین اور سڑن کو بہتر انداز میں سمجھنا شروع کیا اور علاج کے لیے جڑی بوٹیوں اور جراحی طریقوں کا ذکر کیا۔
جدید دور
انیسویں صدی میں طب اور جراحی کے طریقے بہت ترقی یافتہ ہو چکے تھے۔ گینگرین کا علاج اب جسم کے متاثرہ حصے کو کاٹنے (عضو بریدی) کے ذریعے کیا جاتا تھا، تاکہ انفیکشن پھیلنے سے روکا جا سکے۔
جراثیم کش طریقے اور انفیکشن روکنے والی دوائیں:
انیسویں صدی کے آخر میں، معروف ماہر جراحی جوسف لسٹر نے جراثیم کش طریقوں کو متعارف کرایا، جس سے زخموں کی دیکھ بھال اور آپریشن محفوظ بنے۔ بیسویں صدی کے وسط میں پینی سیلین جیسی ادویات کی دریافت نے گینگرین کے علاج کو مزید مؤثر بنا دیا۔
آج کا دور
آج کے جدید طبی دور میں گینگرین کا علاج مؤثر دواؤں، جراحی، اور خون کی روانی کو بہتر بنانے والے طریقوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر وقت پر تشخیص ہو جائے تو گینگرین سے بچاؤ ممکن ہے۔ عضو بریدی صرف اسی وقت کیا جاتا ہے جب دیگر تمام علاج ناکام ہو جائیں۔
گو گینگرین " ایسا ادارہ ہے جو پچھلے 25 سالوں سےتمام اقسام کی گینگرین ، وریکوس وینز ، شوگر یا بغیر شوگر کے نہ ٹھیک ہونے والے زخموں کا علاج کر رہا ہے۔ جس سے الله پاک مریضوں کو شفا دے رہا ہے ۔ "گو گینگرین " سے بہت سے مریض صحتیاب ہو چکے ہیں۔ زخموں سے متعلق امراض کا دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج کیا جاتا ہے۔ ہمارا ادارہ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن سے رجسٹرڈ ہے- ہم شوگر کے زخموں والے مریضوں کو کبھی بھی سرجری کا مشورہ نہیں دیتے بلکہ ان کا علاج کھانے والی ادویات سے کرتے ہیں اور انکو معذوری سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا یہ عزم بھی ہے کہ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معذوری سے بچایا جائے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین۔"